اور شام ٹھہر گئی

گیت ۔۔ قاتل شہر کے لوگ

بانٹ رہے ہیں لمحہ لمحہ ہر جانب یہ روگ قاتل شہر کے لوگ اندھیارا ہے گلیوں میں اور رستے سب سنسان ان رستوں پر بھٹک رہی ہوں میں تنہا حیران ہر جانب کیوں سوگ قاتل شہر کے لوگ قاتل شہر کے رستوں میں کل

گیت ۔۔ زندگی رک جا ذرا

زندگی رک جا ذرا اب پھر کہاں تُو ہے چلی زردیوں کے موسموں میں کب کھِلی کوئی کلی پھر کہاں تُو ہے چلی دیکھ وہ اک یاد دل میں موجزن ہے آج بھی آنکھ میں جو خواب تھے اُن کی چبھن ہے آج بھی جانتی ہے سامنے

نظم ۔۔ آپ کون ؟

عجیب سی یہ بات ہے کہ جو مرایقین تھا جو تپتے راستوں میں میرے واسطے گلوں کی سر زمین تھا کہ جو مرا گمان تھا جو ابر تھا مرے لئے جو میرا آسمان تھا جو میری ابتدا تھا اور مرا جو اختتام تھا جو میری صبحِ

آندھیوں میں اُڑا رہی ہے وفا

آندھیوں میں اُڑا رہی ہے وفا دشت کیسے دکھا رہی ہے وفا چلتے چلتے میں تھک گئی ہوں مگر اک نئی رہ دکھا رہی ہے وفا پھر کوئی زخم بھرنے والا ہے پھر مجھے یاد آرہی ہے وفا ایک منظر مٹا دیا میں نے ایک منظر

نثری نظم ۔۔ ریت تو پھر ریت ہے

میرے گھر کی الجھی پگڈنڈیوں سے اس کے گھر کے راستوں تک چناب اور سندھ آتے ہیں چناب پار کرنے کو تو شاید کچا گھڑا مل بھی جائے مگر سندھ کے پار اترنے کو کچے گھڑے کی مٹی نہیں ملتی کچا گھڑا کیسے بناؤں ریت

مرا دل اس لیے دھڑکا نہیں ہے

مرا دل اس لیے دھڑکا نہیں ہے پلٹ کر اُس نے جو دیکھا نہیں ہے الٰہی میں کہاں پر آگئی ہوں اجالا بھی جہاں اُجلا نہیں ہے یہ آنسو بھی مسافر ہیں جبھی تو انہیں میں نے کبھی روکا نہیں ہے وہی اک خواب ہوتا ہے