گیت ۔۔ قاتل شہر کے لوگ
بانٹ رہے ہیں لمحہ لمحہ ہر جانب یہ روگ قاتل شہر کے لوگ اندھیارا ہے گلیوں میں اور رستے سب سنسان ان رستوں پر بھٹک رہی ہوں میں تنہا حیران ہر جانب کیوں سوگ قاتل شہر کے لوگ قاتل شہر کے رستوں میں کل
تازہ ترین
بانٹ رہے ہیں لمحہ لمحہ ہر جانب یہ روگ قاتل شہر کے لوگ اندھیارا ہے گلیوں میں اور رستے سب سنسان ان رستوں پر بھٹک رہی ہوں میں تنہا حیران ہر جانب کیوں سوگ قاتل شہر کے لوگ قاتل شہر کے رستوں میں کل
زندگی رک جا ذرا اب پھر کہاں تُو ہے چلی زردیوں کے موسموں میں کب کھِلی کوئی کلی پھر کہاں تُو ہے چلی دیکھ وہ اک یاد دل میں موجزن ہے آج بھی آنکھ میں جو خواب تھے اُن کی چبھن ہے آج بھی جانتی ہے سامنے
کرے اگر خواب مہربانی تو نیند آئے تھمے کبھی آنکھ سے جو پانی تو نیند آئے یہ دیس جس میں ہے نفرتوں کا ہی راج ہر سوُ محبتوں کی ہو راجدھانی تو نیند آئے بہت دلاسہ دیا کہ وہ لوٹ آئے گا بس یہ بات دل نے
خوابوں میں بھی گر وصل کا امکان نہیں ہے شب جاگتے رہنے میں بھی نقصان نہیں ہے رستہ وہ بدلنا ہی تھا ہم دونوں نے لیکن حیرت تو یہی ہے کہ تُوحیران نہیں ہے کیوں خوف زدہ ہو گئے تم ایک گھٹا سے؟ میں نے تو
عجیب سی یہ بات ہے کہ جو مرایقین تھا جو تپتے راستوں میں میرے واسطے گلوں کی سر زمین تھا کہ جو مرا گمان تھا جو ابر تھا مرے لئے جو میرا آسمان تھا جو میری ابتدا تھا اور مرا جو اختتام تھا جو میری صبحِ
آندھیوں میں اُڑا رہی ہے وفا دشت کیسے دکھا رہی ہے وفا چلتے چلتے میں تھک گئی ہوں مگر اک نئی رہ دکھا رہی ہے وفا پھر کوئی زخم بھرنے والا ہے پھر مجھے یاد آرہی ہے وفا ایک منظر مٹا دیا میں نے ایک منظر
کیا کیا مہیب دشت دکھائے گی اے وفا لے کر تُو کس طرف کو اب جائے گی اے وفا رستے میں شام ہو گئی اب تو ذرا ٹھہر کتنا ہمیں تُو اور تھکائے گی اے وفا چپ ہیں زمین و آسماں سب دیکھتے ہوئے کیا کیا اب اور زخم
میرے گھر کی الجھی پگڈنڈیوں سے اس کے گھر کے راستوں تک چناب اور سندھ آتے ہیں چناب پار کرنے کو تو شاید کچا گھڑا مل بھی جائے مگر سندھ کے پار اترنے کو کچے گھڑے کی مٹی نہیں ملتی کچا گھڑا کیسے بناؤں ریت
مرا دل اس لیے دھڑکا نہیں ہے پلٹ کر اُس نے جو دیکھا نہیں ہے الٰہی میں کہاں پر آگئی ہوں اجالا بھی جہاں اُجلا نہیں ہے یہ آنسو بھی مسافر ہیں جبھی تو انہیں میں نے کبھی روکا نہیں ہے وہی اک خواب ہوتا ہے
عشق سے اپنی نسبت کے کچھ خاص حوالے رکھتی ہوں اسی لئے تو دشتِ وفا کی دھول سنبھالے رکھتی ہوں میں بھی کتنی سادہ دل ہوں دشمنِ جاں کو دوست کہوں مفت میں خود کو وہم و گماں میں اکثر ڈالے رکھتی ہوں تنہا