کہیں پہ گرد کہیں پر ہوا بناتی ہوں
کہیں پہ گرد کہیں پر ہوا بناتی ہوں میں خود کو اب تو بس اپنے سوا بناتی ہوں کہیں پہ تارے کہیں پر ہیں آس کے جگنو خزاں میں بھی میں گلوں کی فضا بناتی ہوں بکھر گئے تھے کسی نام کے حروف کہیں اب ان کو جوڑ
تازہ ترین
کہیں پہ گرد کہیں پر ہوا بناتی ہوں میں خود کو اب تو بس اپنے سوا بناتی ہوں کہیں پہ تارے کہیں پر ہیں آس کے جگنو خزاں میں بھی میں گلوں کی فضا بناتی ہوں بکھر گئے تھے کسی نام کے حروف کہیں اب ان کو جوڑ
بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ رشتے گر ضرورت سے جڑے ہوں تو وہ اکثر ٹوٹ جاتے ہیں ضرورت پوری ہونے پر ضرورت مند اک دوجے سے اکثر روٹھ جاتے ہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ دنیا ضرورت ہے یہاں پر سانس لینا ، بات
ابتدا درد ہے، انتہا درد ہے عشق کا درد تو لا دوا درد ہے میں نے پوچھا وفا کا صلہ جو کبھی اُس نے ہنس کر یہ مجھ سے کہا دردہے پیار سے عشق تک جا بجا روشنی پیار سے عشق تک جا بجا درد ہے یہ نیا پھول ہے
دکھوں کی تفصیل لکھنے بیٹھوں تو اشک اپنے تمام لکھوں لہو میں ڈوبیں جو حرف سارے، امام تیرا سلام لکھوں وہ جس نے سجدے میں سر کٹا کے ہمیں نوازا بلندیوں سے وفا کے سجدوں کے شاہ کو ہی میں آج شاہ و اما م
مَیں مدینے جو پہنچی تو دل میں مرے روشنی ہو گئی روح مردہ تھی لیکن مجھے یوں لگا زندگی ہو گئی پھر سحابِ کرم سے خزاؤں میں بھی پھول کھلنے لگے دیکھ کر سبز گنبد بہاروں سے بس دوستی ہو گئی ہے مرے واسطے تو
اے خدا ، اک دعا اک دعا، اے خدا آج کعبے کا دیدار میں نے کیا آج تُو نے مکمل کیا ہے مجھے رحمتوں کو مرا یوں سہارا کیا خاک تھی ، آسماں کا ستارہ کیا بس یہیں اب سپردِ زمیں کر مجھے اپنے ہی شہر کی اب مکیں
ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ ہمارے وسیب کی ایک ہر دلعزیز لیڈی ڈاکٹر، دلآویز شخصیت کی مالک اور اُردو شاعرہ ہیں۔ ان کا تعلق ضلع ڈیرہ غازی خان کے معروف قبیلہ کھوسہ کے ایک معزز بلوچ گھرانے سے ہے جو حصول
ڈیرہ غازی خان کے نواح میں ایک چھوٹی سی بستی ہے جسے بستی جندانی کے نام سے یاد کیاجاتاہے۔اسی بستی کی ایک بچی اپنی بہن کے ہمراہ بستی سے دور ایک سکول جایا کرتی تھی۔ایک چھوٹا ساسکول۔۔ جیسے دورافتادہ
اے میرے مولااے میرے آقا،بس اپنے رستے پہ ڈا ل دے توُ یہ فانی دنیاکے غم ہیں جتنے ، یہ میرے دل سے نکا ل دے توُ ہو نام تیرا ہی دل کے اندر، ہو ذکر تیرا مرے لبوں پر ہو اتنی سچی یہ میری چاہت، کہ عشق بھی
جس طرح ادب کو ذات ،مذہب ،نسل اور علاقائی خانوں میں میں رکھ کر پرکھا نہیں جا سکتااسی طرح صنفی سطح پر بھی اس کی قدر و قیمت طے نہیں کی جا سکتی۔مگر ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم اپنے تعصبات کی قید سے رہاہو