اور شام ٹھہر گئی

نظم ۔۔ موسم ہیں بس چار

میرے بھرم کو توڑنے والے جفا کا رشتہ جوڑنے والے میرے دکھوں کو اور غموں کودیکھ کے اپنا رخ مجھ سے یوں موڑنے والے عمرِ رواں نے اس جیون میں موسم چار ہی بس دیکھے ہیں تجھ کو پانا تجھ سے ملنا تجھ سے

نظم ۔۔ سوال کر کے کیا ملا ؟

سوال کر کے کیا ملا مرے عروج کو تجھے زوال کر کے کیا ملا یہ عشق اک گلاب تھا تجھے گلاب کو یوں پائمال کر کے کیا ملا یقیں میں بد گمانیاں مثال کر کے کیا ملا میں جانتی تھی ہر جواب اس نصابِ عشق کا تجھے

وہ ہم سے یہ کیسی وفا کر گئے ہیں

وہ ہم سے یہ کیسی وفا کر گئے ہیں ہمیں خود سے ہی جو جدا کر گئے ہیں ہر اک زخم دل کا ہرا کر گئے ہیں وفا کرتے کرتے جفا کر گئے ہیں عجب چیز تھی چار دن کی رفاقت ہمیں غم سے بھی آشنا کر گئے ہیں یہ سب نے

نظم ۔۔ تُو زندگی ہے مرے مسیحا

کبھی کبھی میں بھی سوچتی ہوں ترے خیالوں سے اب میں نکلوں محبتوں کے سبھی حوالوں سے اب میں نکلوں کسی کا مضبوط ہاتھ تھاموں کسی حسیں رہگزر کو دیکھوں یہ مسکراتی ہوئی جو دنیا چہار جانب بسی ہوئی ہے اسے

زندگی میں یہ کیسی خوشی دے گیا

زندگی میں یہ کیسی خوشی دے گیا مجھ کو جاتے ہوئے شاعری دے گیا اشک آنکھوں میں، راتوں کو دکھ ہجر کا میں نے جو کچھ نہ مانگا وہی دے گیا تیرے بن میرا جیون ہی تاریک تھا تُو نے اچھا کیا روشنی دے گیا کیا

زندگی بے قرار لگتی ہے

زندگی بے قرار لگتی ہے درد کی آبشار لگتی ہے پھر سے شامِ فراق آئی اب ّآنکھ بھی اشکبار لگتی ہے زخم دل کے شمار کرتی ہوں ہر گھڑی سوگوار لگتی ہے کیا بتاؤں یہ ہستی ء موہوم ایک مشتِ غبار لگتی ہے سردیوں