نظم ۔۔ موسم ہیں بس چار
میرے بھرم کو توڑنے والے جفا کا رشتہ جوڑنے والے میرے دکھوں کو اور غموں کودیکھ کے اپنا رخ مجھ سے یوں موڑنے والے عمرِ رواں نے اس جیون میں موسم چار ہی بس دیکھے ہیں تجھ کو پانا تجھ سے ملنا تجھ سے
تازہ ترین
میرے بھرم کو توڑنے والے جفا کا رشتہ جوڑنے والے میرے دکھوں کو اور غموں کودیکھ کے اپنا رخ مجھ سے یوں موڑنے والے عمرِ رواں نے اس جیون میں موسم چار ہی بس دیکھے ہیں تجھ کو پانا تجھ سے ملنا تجھ سے
زحمت کبھی کبھی تو مشقت کبھی کبھی لگتی ہے زندگی بھی مصیبت کبھی کبھی پہلو میں جاگتی ہے محبت کبھی کبھی آتی ہے ہاتھ درد کی دولت کبھی کبھی اب تک ترے بغیر مَیں زندہ ہوں کس طرح ہوتی ہے اپنے آپ پر حیرت
جانتی تھی ایک دن وہ بے خبر ہو جائے گا راستہ جیون کا بس دشوار تر ہو جائے گا تھی بہت خاموش ،لیکن تھی طلب گارِ وفا تھا یقیں مجھ پر دعاؤں کا اثر ہو جائے گا بے خبر تھی اس حقیقت سے کہ یہ جیون مرا کرب
سوال کر کے کیا ملا مرے عروج کو تجھے زوال کر کے کیا ملا یہ عشق اک گلاب تھا تجھے گلاب کو یوں پائمال کر کے کیا ملا یقیں میں بد گمانیاں مثال کر کے کیا ملا میں جانتی تھی ہر جواب اس نصابِ عشق کا تجھے
وہ ہم سے یہ کیسی وفا کر گئے ہیں ہمیں خود سے ہی جو جدا کر گئے ہیں ہر اک زخم دل کا ہرا کر گئے ہیں وفا کرتے کرتے جفا کر گئے ہیں عجب چیز تھی چار دن کی رفاقت ہمیں غم سے بھی آشنا کر گئے ہیں یہ سب نے
یہ مرا ادراک ، بس مجھ تک ہی کیوں محدود ہے؟ ایک پتھر دل ہی کیوں آ خر مرا معبود ہے؟ پا رہے ہیں منزلیں اپنی سبھی سجدوں سے جب کس وفا کی راہ میں یہ دل مرا مسجود ہے؟ پھول ، تاروں ، خوشبوؤں سے دل ہوا
کبھی کبھی میں بھی سوچتی ہوں ترے خیالوں سے اب میں نکلوں محبتوں کے سبھی حوالوں سے اب میں نکلوں کسی کا مضبوط ہاتھ تھاموں کسی حسیں رہگزر کو دیکھوں یہ مسکراتی ہوئی جو دنیا چہار جانب بسی ہوئی ہے اسے
زندگی میں یہ کیسی خوشی دے گیا مجھ کو جاتے ہوئے شاعری دے گیا اشک آنکھوں میں، راتوں کو دکھ ہجر کا میں نے جو کچھ نہ مانگا وہی دے گیا تیرے بن میرا جیون ہی تاریک تھا تُو نے اچھا کیا روشنی دے گیا کیا
زندگی بے قرار لگتی ہے درد کی آبشار لگتی ہے پھر سے شامِ فراق آئی اب ّآنکھ بھی اشکبار لگتی ہے زخم دل کے شمار کرتی ہوں ہر گھڑی سوگوار لگتی ہے کیا بتاؤں یہ ہستی ء موہوم ایک مشتِ غبار لگتی ہے سردیوں
کیسے کہیں کہ کیسے گزاری ہے زندگی کیا بوجھ تھی کہ سر سے اتاری ہے زندگی مقتل تھے گام گام یہ رستہ طویل تھا اپنے لہو سے ہم نے سنواری ہے زندگی کرتی ہے خود تلاش یہ کانٹوں کا راستہ اس واسطے سکون سے عاری