چاندنی چپ رہی ، روشنی چپ رہی
چاندنی چپ رہی ، روشنی چپ رہی میری ہر بات پر زندگی چپ رہی ہم تو گھٹ گھٹ کے اک روز مر جائیں گے اس گھٹن میں اگر آنکھ بھی چپ رہی درد میرا بیاں اِن سے کب ہو سکا شعر خاموش تھے ، شاعری چپ رہی اک یقیں
تازہ ترین
چاندنی چپ رہی ، روشنی چپ رہی میری ہر بات پر زندگی چپ رہی ہم تو گھٹ گھٹ کے اک روز مر جائیں گے اس گھٹن میں اگر آنکھ بھی چپ رہی درد میرا بیاں اِن سے کب ہو سکا شعر خاموش تھے ، شاعری چپ رہی اک یقیں
دکھ کے لمحوں میں مرا ایک سہارا ماں ہے میں اگر ڈوبتی کشتی ہوں کنارہ ماں ہے اُس کے قدموں میں جو جنت ہے تو مطلب یہ ہے آسمانوں سے جسے رب نے اتارا ماں ہے خوشبو ایسی کہ مری روح تلک مہکی ہے روشنی ایسی
پوچھتی ہوں تمہیں اک سوال آج میں پوچھتی ہوں وہ لمحے کہاں ہیں بھلا جو ترے پاس تھے جو مری آس تھے میرے لمحے بھلا دھول کیسے ہوئے ؟ خواب وہ وقت کی دھول کیسے ہوئے ؟ کیسے بجھنے لگے تھے ستارے سبھی؟ کیسے
میرے مقتل کو جس دن سجایا گیا بے بسی کو سہیلی بنایا گیا ایک شہنائی کی دھن پہ جس روز اک ماتمی گیت مجھ کو سنایا گیا ایسے لمحوں میں نے تڑپتے ہوئے آسماں کو پکارا مدد کے لئے میں نے دیکھا فلک کے ستارے
جب سے تجھ سے دور ہوئے ہم لفظ سے معنی بچھڑ گئے ہیں فصلِ گُل یہ کیسی آئی موسم دل کے اُجڑ گئے ہیں میں کیوں تجھ کو ڈھونڈ رہی ہوں بخت کی ریکھاؤں میں آخر وہ جو شجر تھے چاہت والے ، سب آندھی میں اکھڑ گئے ہیں
ہنستے ہنستے ایک دن سب کو رُلا کر جاؤں گی زندگی تیرے ستم پر مسکرا کر جاؤں گی ریزہ ریزہ کر گئیں مجھ کو تری یادیں مگر ریت کی صورت انہیں میں اب اُڑا کر جاؤں گی خشک پتوں کی طرح سے ہے مری جو زندگی ہجر
ہر ایک خواب میں حرف و بیاں میں رہتا ہے وہ ایک شخص جو دل کے مکاں میں رہتا ہے نہ دن نکلتا ہے اُس کا ،نہ شام ہوتی ہے اب اِس طرح سے بھی کوئی جہاں میں رہتا ہے یقین ہے کہ وہ مجھ پر یقین رکھتا ہے گمان
محبت نے مری ہستی میں خشتِ آستاں رکھ دی جبینِ شوق میں خوئے نیازِ دلبراں رکھ دی متاعِ دین و ایماں ہے ہمارا داغِ پیشانی وہیں پر بن گیا کعبہ جبیں اپنی جہاں رکھ دی ہمارے زخمِ دل دیکھو گلابوں سے حسین
بچھڑ کے اُس سے ابھی ہوں زندہ مگر بہت پر ملا ل اب تک خبر نہیں وہ سنبھل چکا ہے یا وہ بھی ہے خستہ حال اب تک مجھے ترا انتظار کیوں ہے؟یہ دل مرا بے قرار کیوں ہے ؟ مرے خیال و نظر میں دیکھو یہی ہے بس اک