تم ہوئے جب سے خفا اپنے گرفتار کے ساتھ
تم ہوئے جب سے خفا اپنے گرفتار کے ساتھ کچھ سروکار نہیں رونقِ بازار کے ساتھ کتنے انمول ہیں یہ مہر و وفا کے موتی کوئی پرکھو نہ انہیں درہم و دینار کے ساتھ کب سے ٹھہری ہے مرے دل میں ادھوری خواہش کاش
تازہ ترین
تم ہوئے جب سے خفا اپنے گرفتار کے ساتھ کچھ سروکار نہیں رونقِ بازار کے ساتھ کتنے انمول ہیں یہ مہر و وفا کے موتی کوئی پرکھو نہ انہیں درہم و دینار کے ساتھ کب سے ٹھہری ہے مرے دل میں ادھوری خواہش کاش
وفا دینے والے خوشی کی مجھے اب دعا دینے والے تجھے تو خبر ہے مرے پھول مرجھائے ہیں کس طرح سے یہ دکھ مجھ تلک آئے ہیں کس طرح سے تجھے تو خبر ہے تو پھر کیوں خوشی کی دعا دے رہا ہے وفا دینے والے دعا دے کے
خلوص کیوں ہے بے اثر، مجھے نہیں ہے کچھ خبر کہاں گیا وہ چارہ گر، مجھے نہیں ہے کچھ خبر کہاں پہ کون ساتھ ہو ، کہاں پہ کون چھوڑ دے کہاں پہ گم ہو رہ گزر، مجھے نہیں ہے کچھ خبر وہ لا پتہ ہوں جس نے خود
غم جو دل کو لاحق ہے میں آنکھ میں بانٹنا چاہوں رات کے ہر اک غم کا منظر خواب میں جھونکنا چاہوں توڑ دوں پاگل دل کو، یا سمجھا کر رام کروں میں درد جو بسا ہوا ہے روح میں، اُس کو نوچنا چاہوں میں چاہوں
اس بدن کے ملبے کے اندر اک دل کی اجڑی تختی ہے جس میں سناٹے بولتے ہیں یادوں کے در جو کھولتے ہیں کچھ خوابوں کے ذرے ہیں جو اس لہو میں خلیوں کی صورت جب رقص کریں تو بولتے ہیں کچھ بکھرے آس کے ٹکڑے ہیں
چاہتوں میں اُس کا اپنا ہی کوئی معیار تھا عقل اُس کی تھی طلب ، مجھ کو جنوں درکار تھا کون تھا جو جل رہا تھا آپ اپنی آگ میں کون تھا جو ظلمتوں سے بر سرِ پیکار تھا یوں نہ تھا وارفتگی سے ہم ہی بس چاہا
غم کے سنسان بیاباں سے نکلتا ہی نہیں دل مرا درد کے طوفاں سے سنبھلتا ہی نہیں عشق کی آتشِ خاموش ہے کب سے روشن مگر احساس کا شعلہ ہے کہ جلتا ہی نہیں ہر طرف دھند ہے اشکوں کی فراوانی سے دلِ بیتاب سرابوں
اے زندگی میں تجھ سے بس اتنا پوچھتی ہوں منزل کہاں ہے میری ؟کچھ تو مجھے بتا دے بھٹکی ہوئی مسافر ، رستہ مجھے دکھا دے صبحِ ازل کہاں ہے ؟ شامِ ابد کہاں ہے ؟ موت و حیات کیا ہے ؟ یہ کائنات کیا ہے؟ جسموں
قربتِ گل ہمیں نہ راس آئی روز ڈستی رہے گی تنہائی اس میں رستے کا تو کمال نہیں ہم نے ٹھوکر اگر نہیں کھائی ہم تو سب کو امیر لگتے ہیں دولتِ درد جب سے ہے پائی جب مری آنکھ ہی نہیں برسی پھر تری یاد دل
جب زندگی کے نام پر بے جان ہو گئی میں عشق کے سلوک پر حیران ہو گئی سب سرحدیں پھلانگ کر عقل و شعور کی راہِ وفا میں خود سے بھی انجان ہو گئی جس نے مجھے عطا کیا یہ خامشی کا گیت اُس کی صدا ہی اب مری