نظم ۔۔ موسمِ وصل کے استعارے میں ہوں
ہاتھ میں رائیگاں سی لکیریں جو ہیں آنکھ کے دشت میں یہ جو تصویر ہے یہ جو تعزیر ہے آسماں پر بکھرتے ستارے جو ہیں موسمِ وصل کے استعارے جو ہیں استخارے جو ہیں اِن کو دیکھا کبھی اِن کو جانچا کبھی تو یہ
تازہ ترین
ہاتھ میں رائیگاں سی لکیریں جو ہیں آنکھ کے دشت میں یہ جو تصویر ہے یہ جو تعزیر ہے آسماں پر بکھرتے ستارے جو ہیں موسمِ وصل کے استعارے جو ہیں استخارے جو ہیں اِن کو دیکھا کبھی اِن کو جانچا کبھی تو یہ
پیار کی کب ہو سکیں شنوائیاں راہ میں تھیں منتظر رسوائیاں دے گئیں مجھ کو بہت تنہائیاں اس دلِ نادان کی دانائیاں کل خوشی کی چاہ میں مچلا تھا دل آج ہیں بس درد کی تنہائیاں طالب و مطلوب جب موجود ہیں کھو
شام کی دہلیز پر لیں درد نے انگڑائیاں جاگ اٹھے ہیں غم سبھی اور رو پڑیں تنہائیاں راستوں پر خاک ہے ، پھولوں سے خوشبو کھو گئی دن کا اب امکاں نہیں ہے کھو گئیں رعنائیاں جب وفا گھائل ہوئی ، دنیا میں جب
سنو مسافر یہ دل صحیفہ سہی مگر اس پہ چاہتوں کی کوئی کہانی رقم نہ ہو گی کہ چاہتوں کی ہر اک کہانی اداس آنکھوں سے جھانکتی ہے اداس چہروں پہ ہی رقم ہے سو میری مانو تو دل صحیفے کو گزرے وقتوں کی داستانوں
ہر گھڑی درد کی شدت سے بلکتی آنکھیں آتشِ ہجر سے ہر لمحہ پگھلتی آنکھیں ایک لمحے کی ملاقات ہوئی عمر کا روگ اُس کی صورت کوہیں ہر وقت ترستی آنکھیں دلِ بے تاب میں اب تک وہ مچلتی خواہش تیری خوشبو سے
درد مسافر ٹھہر گیا تھا اکھیوں کی حیرانی میں صرف محبت بہتی تھی اور ساتھ یہ اشک روانی میں کیسے ہوا اور کب یہ ہوا کچھ خبر نہیں تھی دل کو تو ایک محبت جاسوئی تھی وحشت میں، ویرانی میں درد کی شدت اور
کل ایک ہنستی مگر اُداس آنکھوں والی معصوم لڑکی کو دیکھا جو اپنے خوابوں کے شہزادے کی سنہری آنکھوں میں جھانکتی اُس کی ہر ادا کو اپنی نیل سمندر آنکھوں میں اتار رہی تھی وہ کھکھلاتا ہوا ایک مٹھائی کا
جیون میں دائمی سی کوئی شام کر گیا وہ رَت جگے اَبد کے مرے نام کر گیا تصویر تھی جو آنکھ کے پردے پہ رہ گئی اک عکسِ خاص تھا وہ جسے عام کر گیا حرفِ وفا کو حرفِ غلط کہہ کے ایک شخص میرے یقیں کو کیوں
اجنبی شہر کی اجنبی شام میں زندگی ڈھل گئی ملگجی شام میں شام آنکھوں میں اتری اسی شام کو زندگی سے گئی زندگی شام میں درد کی لہر میں زندگی بہہ گئی عمر یوں کٹ گئی ہجر کی شام میں عشق پر آفریں جو سلامت
ابر کی صورت میرے سر پر ایک دعا ہی رہتی ہے میری اپنی ذات بھی اس کی خوشبو سے ہی مہکی ہے اپنے دکھوں پر رونے والی میرے لیے تو ہنستی ہے میری تاریکی میں ہر پل جھلمل کرنوں جیسی ہے میرا ہر اک دکھ جو